بھارت میں آئی لو محمد ﷺ مہم کے خلاف پولیس کا سخت کریک ڈاؤن ، مسلمانوں کی گرفتاریاں جاری
بھارت میں آئی لو محمد ﷺ مہم کے خلاف پولیس کا سخت کریک ڈاؤن ، مسلمانوں کی گرفتاریاں جاریشعور نیوز( انٹرنیشنل ڈیسک): بھارتی ریاست اتر پردیش کے متعدد اضلاع میں پولیس نے "آئی لو محمدﷺ" مہم کے خلاف اپنا کریک ڈاؤن تیز کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں کئی بھارتی مسلم علما اور دیگر کمیونٹی کے سینکڑوں مسلمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ مہم میں مسلمان صرف بینرز، پوسٹروں اور جلوسوں کے ذریعے I love Mohammad SAW کے جملے کو نمایاں کر رہے ہیں ۔ بھارتی پولیس نے اس جملے کو متنازعہ بنا کر اُس کو تشدد پھیلانے کا لیبل لگا کر ریاست بھر میں بدامنی اور پولیس کارروائی کو جنم دیا ہے۔زیر نظر تصویر میں شاملی، اتر پردیش میں بھارتی پرچم اٹھائے ایک نوجوان مسلمان کو محض سینے پر اپنا عقیدہ لکھنے پر گرفتار کیا گیا۔اہم گرفتاریاں اور عدالتی تحویلانڈیا کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست میں ہندو مسلم تناؤ کی صورتحال مستقل بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ ریاست پولیس کی مدد سے گرفتاریاں و مقدمات کی آڑ لیکر معاملات کو خراب کر رہی ہے۔انڈیا کے ایک سرکردہ مسلم اسکالر اور اتحاد ملت پریشد کے صدر مولانا توقیر رضا کو سات دیگر افراد کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا۔ انہیں 14 دن کی عدالتی تحویل میں رکھا گیا ہے۔پولیس نے نماز جمعہ کے بعد بریلی میں ہونے والے مظاہروں کا’’ماسٹر مائنڈ‘‘ کا الزام لگایا ہے۔ اس سلسلے میں تشدد کی متعدد ایف آئی آر درج کی گئی ہیں، جن میں سے ہر ایک میں 200 مسلمانوں کو ملزم نامزد کیا گیا ہے - ریاست بھر میں متعلقہ مقدمات میں 1,300 سے زیادہ مسلمانوں کو ملزم بنایا گیا ہے۔بارہ بنکی میں، شرپسندوں نے مسلمانوں کے عقیدے والے بینر کو پھاڑ دیا، جس سے کشیدگی اور پولس کی تحقیقات شروع ہو گئیں۔غازی آباد میں ایک 45 سالہ شخص کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب اس کے گھر کے باہر "میں محمد سے محبت کرتا ہوں" کے پوسٹر چسپاں پائے گئے۔ قدوائی نگر علاقے میں پولیس کی یہ کارروائی بجرنگ دل کے کارکنوں کے احتجاج کے بعد ہوئی، جنہوں نے پوسٹروں پر اعتراض کیا اور فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔ماؤ اور وارانسی میں پولیس نے جلوسوں پر لاٹھی چارج کیا اور بغیر اجازت مظاہرے کرنے کا عنوان دے کر شرکاء کو گرفتار کیا۔اتر پردیش کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) نے حکام بالا کو جواز دینے کے لیے رپورٹ میں فرقہ وارانہ تشدد کے منصوبوں اور شریعت کے نفاذ کی کوششوں کو موضوع بنا دیا ۔اس الزام کی آڑ میں 4 مسلمان گرفتار بھی کیے او ر تحقیقات میں پاکستان میں مقیم گروپوں سے ممکنہ روابط کا انکشاف ظاہر کردیا۔ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (APCR) کے مطابق، کم از کم 21 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں، جن میں 38 گرفتاریوں کے ساتھ 1,320 سے زیادہ مسلمانوں کو ملوث کیا گیا ہے۔ نمایاں سرگرمی والے اضلاع میں اناؤ، باغپت، قیصر گنج، شاہجہاں پور، کوشامبی اور بریلی شامل ہیں۔یہ سب واقعات اس انداز سے پیش کیے جا رہے ہیں کہ ’ہندو قوم پرستی ‘ اور ’ہندوتوا ‘کو مستقل جواز ملتا رہے۔سماجی اور سیاسی رد عملسوشل میڈیا پرہیش ٹیگ بڑے پیمانے پر ٹرینڈ کر رہا ہے۔ AIMIM کے سربراہ اسد الدین اویسی سمیت سیاسی رہنماؤں نے مذہبی اظہار کے آئینی حق کی تصدیق کرتے ہوئے کریک ڈاؤن کی مذمت کی۔ شہری حقوق کے گروپوں اور ممتاز ہندوستانی شہریوں نے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو خط لکھ کر مہم سے منسلک من مانی حراست اور ہراساں کرنے کا الزام لگایا ۔یہ کریک ڈاؤن کانپور میں ہندو گروپوں کے اعتراضات کے بعد شروع ہوا ۔ ہندو اپنے رام نومی کے تہوار کے دوران جان بوجھ کر مسلم اکثریتی محلوں میں جان بوجھ کر اشتعال انگیزی کرنے گئے۔بورڈ کو توڑنے سے ہندو مسلم کشیدگی پیدا ہوئی تب سے بحران مستقل بڑھتا جا رہا ہے۔ہندوؤں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کی تقریبات کے دوران "میں محمد ﷺ سے محبت کرتا ہوں" کے بورڈ پر مسلمانوں پر "بھڑکانے" کا الزام لگاتے ہوئے ایف آئی آر درج کرائی او ر اس سے قبل بورڈ کو بھی نقصان پہنچایا تھا۔اتر پردیش میں ہندوتوا (ہندو بالادستی) بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ہے، جس کی قیادت وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کرتی ہے، جو بھارت میں سب سے زیادہ کھلے عام مسلم مخالف سیاست دانوں میں سے ایک ہے۔